"اہلسنت و جماعت" کے نسخوں کے درمیان فرق

اسلامی انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
(«'''اہلسنت و جماعت''' اہلسنت اس حق جماعت کو کہا جاتا ہے جو سواد اعظم اور یہی...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
(کوئی فرق نہیں)

حالیہ نسخہ بمطابق 19:09، 28 مارچ 2020ء

اہلسنت و جماعت اہلسنت اس حق جماعت کو کہا جاتا ہے جو سواد اعظم اور یہی "ما انا علیہ واصحابی" کے مصداق ہے

وجہ تسمیہ[ترمیم]

اہلسنت و جماعت ان تمام افراد کو کہا جاتا ھے جو رسول کریم صلی الله علیہ و سلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے طریقے پر کار بند ھیں ۔ وجہ تسمیہ نام سے ظاہر ہے، سنت پر چلنے والے اور جماعت کہنے کی وجہ یہ کہ وە لوگ حق پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے ۔ مصلحین امت نے ھر دَور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے، اسی کوشش کو مسلک حق اہلسنت و جماعت کہا گیا، عملی طور پر اصحاب نبوی ، اہل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثين ،ائمہ مجتہدین ، اولیائے کاملین سب اسی پر کار بند رہے۔

اہلسنت کے عقائد[ترمیم]

جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ،قادِری ، چشتی ، نقشبندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہے، وە اہلسنت وجماعت ( ایک لفظ میں " سنی" ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ھیں ۔)ابتدا ھی سے ھر عہد میں اہلسنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ھیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔

اہلسنت کی اصطلاح[ترمیم]

اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاھری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیے استعمال ھوتا آ رہا ہے ۔چناں چہ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ھونے کی علامت ہے۔ [1]

احادیث مبارکہ[ترمیم]

حضرت عبد الله بن عمرو سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیک وسلم، وە ملت واحدە کون ھوں گے؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ۔ [2] امام ملا علی قاری فرماتے ھیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔ اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرمائے گا اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پیروی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقاداً یا قولاً یا فعلاً ) الگ ہوا وە آگ میں الگ ہوا۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ہوا وە آگ میں ڈالا جاے گا۔[3]

ابن عباس رضی ا لله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية [4] جو جماعت (اھل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاہلیت کی موت مرا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688،
  2. ترمذی : 2461 ، ابن ماجہ: 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171
  3. ترمذی:2167،کنز العمال:1029،1030،مشکوۃ:173،174
  4. بخاری : 7054