ابوبکر صدیق
حضرت سیدناامیر المومنین ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ
آپ کاسلسلہ نسب حضرت سیدناعروہ بن زبیررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ’’حضرت سیدناامیر المومنین ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ بن کعب ہے۔‘‘مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب میں بھی مرہ بن کعب تک چھ ہی واسطے ہیں اور مرہ بن کعب پرجاکر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا سلسلہ سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد عثمان کی کنیت ابو قحافہ ہے، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب ہے۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ (یعنی امیرالمومنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید بن ناقد خزاعی ہیں۔ امیرالمومنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی دادی (یعنی حضرت سیدناابو قحافہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی والدہ)کا نام امینہ بنت عبد العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب ہے۔ المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ، الحدیث:۱،ج۱،ص۵۱،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۴، ص۱۴۴
صدیق اکبر کا اسم گرامی
آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے نام کے بارے میں تین قول ہیں: پہلا قول، عبد اللہ بن عثمان آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا نام عبداللہ بن عثمان ہے۔چنانچہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا نام عبد اللہ بن عثمان ہے۔(صحیح ابن حبان،کتاب اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلم عن مناقب الصحابۃ، ذکر السبب الذی من اجلہ ۔۔۔الخ،الحدیث: ۶۸۲۵، ج۹، ص۶) دوسرا قول، عبد الکعبہ (۱)جمہور اہل نسب کے نزدیک آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا قدیم نام عَبْدُ الْکَعْبَہ تھامشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تبدیل فرماکر عبداللہ رکھ دیا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، باب حرف العین،عبد اللہ بن ابی قحافۃ ابوبکر الصدیق، ج۳، ص ۹۱، الریاض النضرۃ، ج۱، ص۷۷) (۲)آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکے گھر والوں نےعبدالکعبہ نام تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا۔اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی والدہ ماجدہ جب دعا کرتیں تو یوں کہتیں: ’’یَارَبَّ عَبْدِالْکَعْبَۃاے عبدالکعبہکے رب۔‘‘(اسد الغابۃ، باب العین،عبد اللہ بن عثمان ابوبکر الصدیق، ج۳، ص۳۱۵، عمدۃ القاری ،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب المھاجرین وفضلھم، ج۱۱، ص۳۸۴) تیسرا قول، عتیق اکثر محدثین کے نزدیک آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا نام عتیق ہے۔امام ابن اسحاق رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ عتیق حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام ہے اوریہ نام ان کے والد نے رکھا۔جبکہ حضرت سیدنا موسی بن طلحہرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ سے مروی ہے کہ ’’یہ نام آپ کی والدہ نے رکھا۔‘‘ (الریاض النضرۃ،ج۱، ص۷۷) ان تمام اقوال میں مطابقت ان تینوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ،مطابقت کی صورت یہ ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے توآپ کے والدین نے آپ کا نام عبد الکعبہ رکھا،بعدمیں انہوں نے یا سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا، اور عتیق آپ کا لقب تھا، لیکن اسے نام کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ آپ کی کنیت آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی کنیت ابوبکر ہے،واضح رہے کہ آپ اپنے نام سے نہیں بلکہ کنیت سے مشہور ہیں، نیز آپ کی اس کنیت کی اتنی شہرت ہے کہ عوام الناس اسے آپ کااصل نام سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کا نام عبد اللہ ہے۔ ابوبکر کنیت کی وجوہات (۱)عربی زبان میں’’اَلْبَکْر‘‘جوان اونٹ کوکہتے ہیں، اس کی جمع ’’اَبْکُر‘‘ اور ’’بِکَار‘‘ہے،جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یاجس کا قبیلہ بہت بڑا ہوتا یاجواونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘کہتے تھے،چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کاقبیلہ بھی بہت بڑاتھااوربہت مالداربھی تھےنیزاونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھےاس لیے آپ بھی’’ابوبکر‘‘کےنام سے مشہور ہوگئے۔ (۲)عربی زبان میں اَبُو کا معنی ہے’’والا‘‘اور’’بَکْر‘‘کے معنی ’’اوّلیت‘‘ کے ہیں،توابوبکر کے معنی ہوئے ’’اوّلیت والا‘‘چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسلام لانے، مال خرچ کرنے،جان لٹانے،ہجرت کرنے،حضور کی وفات کے بعد وفات، قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ ہرمعاملے میں اوّلیت رکھتےہیں اس لیے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکوابوبکر (یعنی اوّلیت والا)کہاگیا۔ (مرآۃ المناجیح،ج۸،ص۳۴۷) (۳)’’کُنِیَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِہِ الْخِصَالِ الْحَمِیْدَۃِ یعنی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی کنیت ابوبکر اس لیے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے۔‘‘ (سیرت حلبیۃ،ذکر اول الناس ایمانابہ، ج۱، ص۳۹۰) صدیق اکبر کے القابات آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکے دو لقب زیادہ مشہور ہیں عتیق اور صدیق ۔نیز عتیق وہ پہلالقب ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے اس لقب سےآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کوہی ملقب کیاگیاآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے پہلے کسی کو اس لقب سے ملقب نہیں کیاگیا۔
(الریاض النضرۃ، ج۱،ص۷۷)
’’ عتیق‘‘ لقب کی وجوہات جہنم سے آزادی کےسبب عتیق (1)حضرتِ سیدناعبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام’’عبداللہ ‘‘تھا،نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انہیں فرمایا: ’’اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِتم جہنم سے آزاد ہو۔‘‘ تب سے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام عتیق ہوگیا۔ (صحیح ابن حبان ، کتاب اخبارہ عن مناقب الصحابۃ، ج۹، ص۶) ام المو منین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے فرماتی ہیں: میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانصحن میں تشریف فرماتھے، میرے اور ان کے مابین چارپائی رکھی تھی، اچانک میرے والد گرامی امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ تشریف لےآئے توحضور نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کی طرف دیکھ کراپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ أرَادَ أنْ يَنْظُرَ إلٰى عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ إِلٰی أبي بَكْر یعنی جسے دوزخ سےآزاد شخص کو دیکھنا ہووہ ابوبکر کودیکھ لے۔‘‘اس کے بعدسے آپ عتیق مشہور ہوگئے۔ (المعجم الاوسط،من اسمہ الھیثم، الحدیث: ۹۳۸۴، ج۶،ص۴۵۶، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم، معرفۃ نسبۃ الصدیق۔۔۔الخ، الرقم:۵۹، ج۱،ص۴۸) حسن وجمال کے سبب عتیق (2)حضرت سیدنا لیث بن سعد،حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل،علامہ ابن معین اور دیگر کئی علمائےکرام رَحِمَہُمُ اللہ السَّلَام فرماتے ہیں کہ’’إِنَّمَا سُمِّيَ عَتِيْقاً لِحُسْنِ وَجْهِهیعنی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکوچہرے کےحسن وجمال کے سبب عتیق کہا جاتا ہے۔‘‘امام طبرانی قدس سرہ النورانینے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت کی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکو چہرے کے حسن وجمال کے سبب عتیق کہا جاتا تھا۔ (المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ، الحدیث: ۴، ج۱،ص۵۲،اسد الغابۃ، باب العین، عبد اللہ بن عثمان ابوبکر الصدیق،ج۳،ص۳۱۶،تاریخ الخلفاء، ص۲۲) خیرمیں مقدم ہونے کے سبب عتیق (3)علامہ ابو نعیم فضل بن دکین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْمُبِیْن فرماتے ہیں:’’سُمِّيَ بِذٰلِكَ لِأَ نَّه قَدِيْمٌ فِي الْخَيْریعنی خیرو خوبی میں سب سے پہلے اور دیگرافراد سے مقدم ہونے کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا جاتا ہے۔‘‘ (الریاض النضرۃ، ج۱،ص۷۸،تاریخ الخلفاء، ص۲۲) نسب کی پاکیزگی کے سبب عتیق (4)حضرت سیدنا زبیر بن بکارعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْغَفَّار اور ان کے ساتھ ایک پوری جماعت نے بیان کیا ہے کہ :’’إِنَّمَا سُمِّيَ عَتِيْقاً لِأَ نَّهُ لَمْ يَكُنْ فِيْ نَسَبِهٖ شَيْءٌ يُعَابُ بِهیعنی حسب ونسب کی پاکیزگی کہ وجہ سے آپ کوعتیق کہاجاتاہے کیونکہ آپ کے نسب میں کوئی ایسی کمزوری نہیں تھی جس کی وجہ سے آپ کی عیب جوئی کی جاتی۔‘‘ (تاریخ الخلفاء،ص۲۲،اسد الغابۃ،باب العین، عبد اللہ بن عثمان ابوبکرالصدیق، ج۳،ص۳۱۶) والد کے نام رکھنے کے سبب عتیق (5)پہلے آپ کا نام عتیق رکھا گیااوربعدمیں آپ کو عبداللہ کہاجانے لگا، حضرت سیدنا عبد الرحمٰن بن قاسم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے پوچھا:’’آپ کے والد ابوبکر کا نام کیاہے؟‘‘انہوں نے کہا:’’عبداللہ ‘‘۔عرض کیا:’’لوگ تو آپ کو عتیق کہتے ہیں؟‘‘فرمایا:’’میرے دادا ابو قحافہ کے تین بچے تھے۔ آپ نے ان کے نام عتیق ، معیتق، اورمعتق رکھے۔‘‘ (المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکرالصدیق واسمہ،الحدیث: ۶،ج۱،ص۵۳) ماں کی دعا کے سبب عتیق (6)حضرت سیدنا ابوطلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے پوچھا گیاکہ ’’حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکو عتیق کیوں کہاجاتاہے؟‘‘ توآپ نے فرمایا: ’’آپ کی والدہ کاکوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا،جب آپ کی والدہ نے آپ کو جنم دیاتو آپ کو لے کر بیتاللہ شریف گئیں اورگڑگڑاکریوں دعامانگی:اے میرے پروردگار! اگر میرا یہ فرزند موت سے آزاد ہے تو یہ مجھے عطافرمادے۔تواس کے بعدآپ کو عتیق کہا جانے لگا۔‘‘ (تاریخ الخلفاء،ص۲۲،معرفۃ الصحابہ لابی نعیم، معرفۃ نسبۃ الصدیق العتیق، ج۱، ص۴۹) غلبۂ نام کے سبب عتیق (7)ام المومنینحضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ ’’وَإِنَّ اِسْمَهُ الَّذِيْ سَمَّاهُ بِهٖ أَهْلُهُ حَيْثُ وَلَدَ عَبْدَ اللہ بْنَ عُثْمَانَ ، فَغَلبَ عَلَيْهِ اِسْمُ الْعَتِيْقیعنی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا جونام آپ کے گھر والوں نے رکھا وہ عبد اللہ بن عثمان ہے لیکن اس پر عتیق نام غالب آگیا۔‘‘ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم، معرفۃ نسبۃ الصدیق، ج۱،ص۴۸) آسمان وزمین میں عتیق (8)سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’أَبُوْبَكْر عَتِيْقٌ فِی السَّمَاءِ وَعَتِيْقٌ فِى الْأَرْضِ یعنی ابوبکر آسمان مین بھی عتیق ہیں اور زمین میں بھی عتیق ہیں۔‘‘ (مسندالفردوس،الحدیث: ۱۷۸۸، ج۱، ص۲۵۰) غلام آزاد کرنے کے سبب عتیق (9)آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنہایت ہی شفیق اور مہربان تھے حضرت سیدنا بلال حبشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکوان کے آقاکے ظلم وستم اور دیگر کئی مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم سے آزاد کروایاتو عتیق کے نام سے مشہور ہوگئے۔ (مرآۃ المناجیح، ج۸،ص۳۴۶) ان تمام اقوال میں مطابقت آپ کے لقب عتیق کے بارے میں جتنے بھی اقوال ذکر کیے گئے ان تمام میں کوئی تضاد نہیں کہ ہوسکتاہے آپ کے والدین نے آپ کولقبِ عتیق سےکسی ایک معنی میں پکاراہو، اوردیگرلوگوں نے اس معنی میں بھی اور کسی دوسرے معنی میں پکارا ہو۔پھر قریش میں وہی مستعمل ہوگیا، اور پھر یہ اتنامشہور ہوگیاکہ اسلام سے پہلے بھی اوربعد میں بھی باقی رہا۔ لہٰذا مختلف معانی کے اعتبار سے تمام کاآپ کو عتیق پکارنا درست ہوا۔ (الریاض النضرۃ، ج۱،ص۷۸) یقینا مَنبع خوفِ خدا صِدّیقِ اکبر ہیں حقیقی عاشقِ خیرُ الوریٰ صدّیقِ اکبر ہیں نہایت مُتقی و پارسا صِدّیقِ اکبر ہیں تقی ہیں بلکہ شاہِ اَتقیا صِدّیقِ اکبر ہیں رب تعالی نے آپ کا نام صدیق رکھا (1)حضرت سیدتنا نبعہ حبشیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں:میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو فرماتے ہوئے سنا:’’يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ اللہ قَدْ سَمَّاكَ الصِّدِّيْقیعنی اے ابوبکر! بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا ۔‘‘
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف النون،ج۸،ص۳۳۲)
نبیٔ کریم کے نزدیک صدیق (2)حضرت سیدناسعیدبن زیدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے فرماتے ہیں: ’’میں نوافرادکی گواہی دیتاہوں کہ وہ سب جنتی ہیںاوراگرمیں دسویں شخص کی بھی گواہی دوں تومیں گنہگارنہیں ہوں گا۔‘‘پوچھاگیا: ’’وہ کیسے؟‘‘فرمایا:ہم شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ جبلِ حراء پرگئےتو اچانک وہ لرزنے لگا۔محبوب ربِّ داور،شفیع روزمحشرصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا:’’اُثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَ شَهِيدَانِیعنی اے حراء!ٹھہر جا کہ اس وقت تجھ پرایک نبی، ایک صدیق اوردو شہید کھڑےہیں۔‘‘ حضرت سیدنا سعید بن زیدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسےپوچھاگیاکہ اس وقت پہاڑ پر کون تھے؟ فرمایا: ’’رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرت سیدنا ابوبکرصدیق ،سیدنا عمرفاروق، سیدناعثمان غنی،سیدنا علی المرتضی، سیدنا طلحہ ،سیدنا زبیر،سیدناسعد بن ابی وقاص، سیدناعبد الرحمن بن عوف۔‘‘رِضْوَانُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔پھرحضرت سیدناسعیدبن زیدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ خاموش ہوگئے۔ پوچھاگیا:’’یہ تو نو افرادہیں،دسویں کون ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’میں۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ،مناقب سعیدبن زیدبن عمروبن نفیل، الحدیث: ۳۷۷۸، ج۵، ص۴۲۰) اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
صدیق لقب آسمان سے اتاراگیا
حضرت سیدنا ابو یحییٰ حکیم بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضٰی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم واللہ کی قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ ’’أُنْزِلَ اِسْمُ أَبِيْ بَكْرٍ مِنَ السَّمَاءِ الصِّدِّيْقیعنی سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا لقب صِدِّیْق آسمان سے اُتارا گیا۔‘‘(المعجم الکبیر،نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ،الحدیث:۱۴،ج۱، ص۵۵) ہرآسمان پرصدیق لکھاتھا حضرت سیدناابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’عُرِجَ بِيْ إِلَى السَّمَاءِ فَمَا مَرَرْتُ بِسَمَاءٍ إِلَّا وَجَدْتُّ اِسْمِيْ مَكْتُوْباً:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَأَبُوْ بَكْر الصِّدِّيْقُ خَلْفِيیعنی شب معراج میں نےہرآسمان پراپنا نام یوں لکھاہوا دیکھا: ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور ابوبکر صدیق میرے خلیفہ ہیں۔‘‘ (کنز العمال، کتاب الفضائل،الفصل الثانی، فضل ابی بکر، الحدیث: ۳۲۵۷۷، ج۶، الجزء:۱۱،ص۲۵۱) جو آپ کو صدیق نہ کہے۔۔۔؟ حضرت سیدنا عروہ بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا امام باقر ابوجعفر محمد بن علی بن حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے استفسار کیا:
’’مَا قَوْلُكَ فِيْ حُلْيَةِ السُّيُوْف؟یعنی تلوار کو آراستہ کرنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’لَا بَأْسَ قَدْ حُلِىَ أَبُوْ بَكْر الصِّدِّيْقْ سَيْفَه
یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے بھی اپنی تلوار کو آراستہ کیا۔‘‘میں نے کہا: ’’آپ نے انہیں صدیق کہا؟‘‘یہ سننا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ جلال فرماتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور قبلے کی طرف منہ کر کے ارشاد فرمایا:’’ ہاں! وہ صدیق ہیں، ہاں! وہ صدیق ہیں،ہاں! وہ صدیق ہیں۔ اور جو انہیں صدیق نہ کہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے قول کی تصدیق نہیں فرماتانہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں۔‘‘ (فضائل الصحابۃ،ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك، الرقم: ۶۵۵، ج۱، ص۴۱۹)
صدیق اکبر کا کاروبار کپڑے کی تجارت مکہ کے چھوٹے بڑے تمام قبیلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تجارت کرتے تھے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہجب جوان ہوئے توآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی کپڑے کی تجارت شروع کی اوراپنے اعلی اخلاق، صاف گفتگو،زبان کی سچائی اور ایمان داری سے آپ نے بے حدنفع حاصل کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں آپ کا شمار مکہ کے معروف تاجروں میں ہونے لگا ۔ صدیق اکبر کا شام تک تجارتی سفر سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عہد مبارک میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنےتجارت کے لیے شام کے شہر بصری کا سفر اختیار فرمایا۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رفاقت اور آپ صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے گہری وابستگی کی شدید تڑپ کے باوجود آپ نے اس تجارتی سفر کو اہمیت دی اور خود رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے شدید محبت کے باوجود آپ کو یہ سفر کرنے سے منع نہ فرمایا۔ (فتح الباری، ج۱۰، ص۱۰۱) صدیق اکبر کی نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سےدوستی
اسلام سے قبل بھی دوست
اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاورنبیٔ کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمظہورِ اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔ (الریاض النضرۃ، ج۱، ص۸۴) صدیق اکبر کے گھررسولاللہکی روزانہ آمد حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاورنبیٔ کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مابین ایسی گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے گھر روزانہ تشریف لاتے تھے، چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس کی صبح و شام رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، باب المسجد یکون فی الطریق من غیر ضرر بالناس، الحدیث:۴۷۶،ج۱، ص۱۸۰) دوستی کے وقت آپ کی عمر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے دوستی کے وقت آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی عمر سولہ یا اٹھارہ سال تھی اورجب آپ اسلام لائے اس وقت آپ کی عمر اڑتیس سال تھی۔اوریقینا دوستی کے وقت سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عمرمبارک کم وبیش بیس سال تھی کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمحضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے دویا ڈھائی سال عمرمیں بڑے تھے۔ ( تفسیر خزائن العرفان، پ۲۶، الاحقاف:۱۵ملخصا، فتاوی رضویۃ، ج۲۸، ص۴۵۷) غیبی آواز کی پکار حضرت سیدناابو میسرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبیٔ کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمظہور اسلام سے قبل بعض اوقات باہر نکلتے تو کوئی غیبی شخص پیچھے سے آپ کا نام لے کریوںآوازدیتا:’’یامُحَمّد!‘‘آپ جب پیچھےدیکھتےتوکوئی نہ ہوتا۔بڑےحیران ہوتےاوردوبارہ گھرتشریف لے جاتے۔ (تاریخ الاسلام للذھبی، الجزء الاول ، ج۱، ص۱۳۷، دلائل النبوۃ للبیھقی، جماع ابواب المبعث، باب من تقدم اسلامہ من الصحابۃ، ج۲، ص۱۶۴، تاریخ الخلفاء، ص۲۷) سیدنا ورقہ بن نوفل کے ہاں تشریف آوری حضرت سیدناابو میسرہ عمرو بن شرحبیل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبی اکرم، نور مجسم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اُم المومنین حضرت سیدتنا خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے فرمایا:’’جب میں تنہا ہوتاہوں تو مجھےایک عجیب آواز سنائی دیتی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! ضرور کوئی معاملہ ہے۔‘‘حضرت سیدتنا خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے عرض کیا: ’’خدا کی پناہ! آپ کے ساتھ ایساکیوں ہوگا،اللہ کی قسم! آپ توامانت دار، صلہ رحمی کرنے والے اورنہایت ہی سچے انسان ہیں۔‘‘بعدمیں سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی غیر موجودگی میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہتشریف لائے توحضرت سیدتنا خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے آپ کو سارا ماجرا سنایاکیونکہ سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے یہی گہرے دوست تھے اور کہا: ’’اے عتیق!ایساکروانہیں ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاؤ۔‘‘ اتنے میں سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبھی تشریف لے آئے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہآپ کو ساتھ لے کر حضرت سیدنا ورقہ بن نوفل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس چل دیئے، راستے میں گفتگو ہوئی تونبیٔ کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے استفسارفرمایا: ’’ابوبکر!تمہیں میرے بارے میں یہ باتیں کس نے بتائیں؟‘‘ عرض کیا: ’’حضرت خدیجہ نے۔‘‘چنانچہ دونوں سیدنا ورقہ بن نوفل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکے پاس پہنچے، اور سارا ماجرا بیان کیا۔انہوں نے کہا:’’اب اگرآپ کو آواز آئے تو آپ وہیں ٹھرے رہیں اور مکمل بات سنیں پھرمجھے آکر بتائیں۔‘‘چنانچہ سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ویساہی کیااورجب دوبارہ ان کے پاس آئے تو انہیں وہ ساری غیبی بات بیان کردی۔انہوں نے سب کچھ سننے کے بعدآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکونبی مرسل ہونے کی خوش خبری دی۔ (البدایۃ والنھایۃ، ج۲، ص۳۴۲، دلائل النبوۃ للبیھقی، جماع ابواب المبعث، باب اول سورۃ نزلت من القرآن، ج۲، ص۱۵۸ ملخصا صدیق اکبر کا قبول اسلام حضرتِ سیدنا صدیق اکبررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے قبول اسلام کے مختلف واقعات مختلف کتب میں مذکور ہیں۔چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ (1)بحیرا راہب سے ملاقات حضرت سیدناربیعہ بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں:’’حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک ِ شام تجارت کے لیے گئے ہوئےتھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا،جو’’بحیرا ‘‘نامی راہب کوسنایا۔اس نے آپ سے پوچھا:’’ تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ فرمایا:’’مکہ سے۔‘‘اس نے پھرپوچھا:’’کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ فرمایا:’’قریش سے۔‘‘پوچھا:’’کیا کرتے ہو؟‘‘فرمایا:تاجر ہوں۔‘‘وہ راہب کہنے لگا:’’ اگر اللہ تعالٰینےتمہارے خواب کوسچافرمادیاتووہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا،اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔‘‘ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا ،کسی کو نہ بتایا۔اور جب سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے نبوت کا اعلان فرمایا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےیہی واقعہ بطور دلیل آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے سامنے پیش کیا۔یہ سنتے ہی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے حضور نبیٔ کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا:’’میں گواہی دیتا ہوں کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے سچے رسول ہیں۔‘‘ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’اس دن میرے اسلام لانے پر مکہ مکرمہ میں سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زیادہ کوئی خوش نہ تھا ۔‘‘ (الریاض النضرہ،ج۱،ص۸۳) (2)آپ کا خواب ایک بار آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے خواب دیکھا کہ ایک چاند مکۂ مکرمہ پر نازل ہوکر مختلف اجزاء میں تقسیم ہوگیااور اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر گھر میں داخل ہوگیا اور پھر وہ تمام اجزاء مل کر پورا چاند بن کر ان کی گودمیں آگیا۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے ایک راہب سے اس کی تعبیر پوچھی تواس نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکو نبیٔ کریم رؤف رَّحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ظہور اور ان کے اتباع کی خوشخبری دی۔ (الروض الانف، اسلام ابی بکر،ج۱، ص۴۳۱ مختصرا) (3) صدیق اکبر اوردرخت کی پراسرار آواز حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہخود ارشاد فرماتے ہیں:’’ایام جاہلیت میں ایک دن میں ایک درخت کے سایہ میں بیٹھا تھا۔ اچانک اُس درخت کی ایک شاخ میری طرف جھکنے لگی یہاں تک کہ وہ اتنا قریب آگئی کہ میرے سر سے آلگی۔میں اسے دیکھ رہا تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہورہاہے؟ اسی درخت سے یہ آواز میرے کانوں میں پہنچی کہ ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ایک سچا نبی فلاں وقت ظاہر ہوگا تمہیں چاہیے کہ (اس پر ایمان لاؤ اور اس کے دوست بن کر)سب سے زیادہ سعادت مند بنو۔‘‘ میں نے اس سے کہا:’’مجھے واضح کرکے بتاؤ کہ وہ نبی کون ہے اور اس کا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔‘‘ میں نے کہا:’’وہ میرے دوست اور میرے حبیب ہیں۔‘‘ میں نے اس درخت سے عہد لیا کہ جس وقت وہ مبعوث ہوجائیں تو مجھے خوشخبری دے دینا۔ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مبعوث ہوگئے تو اس درخت میں سے آواز آئی کہ ’’اے ابو قحافہ کے بیٹے! وہ نبی مبعوث ہوگیا ہے اب کوشش کرواور قسم ہے رب موسیٰ کی! اسلام میں کوئی تم پر سبقت نہ کرے گا۔‘‘جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پاس پہنچا۔رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’اے ابوبکر! میں تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا:’’ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ہیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو حق دے کر روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے، میں آپ صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر ایمان لایا۔‘‘ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۳، ص۳۱) قبولِ اسلام کے وقت آپ کی عمر اعلی حضرت، امام اہلسنت ، مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں :’’(قبول اسلام کے وقت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی عمرتھی)۳۸ (اڑتیس )سال او رسوائے عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکے کہ حضور(یعنی سیدنا عثمان غنیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) کی عمر شریف ۸۲سال ہوئی ہر سہ(یعنی تینوں) خلفائے راشدین رِضْوَانُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن (میں سے ہر ایک)کی عمرمبارک نیز عمر شریف حضرت سیدنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عمر مبارک کے برابر ہوئیں یعنی ۶۳سال۔ اگرچہ اس میں کچھ روز وماہ کم وبیش ضرور تھی لیکن سال وفات یہی تھا ۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص۶۰) صدیق اکبر اور وحدانیت الہی صدیق اکبرہمیشہ سے مسلمان تھے اعلی حضرت، امام اہلسنت، مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ’’حضرت امیر المومنین، مولی المسلمین، امام الواصلین ، سیدناعلی المرتضی مشکل کشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اورحضرت امیر المومنین، امام المشاہدین، افضل الاولیاء المحمدیین، سیدنا ومولانا صدیق اکبر ،عتیق اطہر عَلَیْہِ الرِّضْوَانُ الْاَجَلُّ الْاَظْھَر دونوں حضرات عالمِ ذُریت سے روزِ ولادت،روزِولادت سے سن تمیز، سن تمیزسے ہنگام ظہورپرنورآفتاب بعثت، ظہوربعثت سے وقت وفات، وقت وفات سے اَبَدُالْآبَاد تک بِحَمْدِاللہِ تَعَالٰیموحد موقن ومسلم ومومن وطیب وزکی وطاہر ونقی تھے اورہیں اوررہیں گے،کبھی کسی وقت کسی حال میں ایک لحظہ ایک آن کو لوثِ (گندگیٔ)کفروشرک وانکار اُن کے پاک، مبارک ، ستھرے دامنوں تک اصلاً نہ پہنچا ،نہ پہنچے۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔(اورسب تعریفیں اللہ تعالٰیکے لئے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا)عالم ذریت سے روزِ ولادت تک اسلام میثاقی تھا کہا: ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ، قَالُوْا بَلٰی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔روز ولادت سے سن تمیز تک اسلام فطری کہ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہوتاہے ۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب ماقیل فی اولادالمشرکین ،الحدیث: ۱۳۸۵، ج۱، ص۴۶۶) کبھی بت کو سجدہ نہ کیا (سیدنا صدیق اکبر) نےسن تمیزسے روز بعثت تک اسلام توحیدی کہ ان حضرات والاصفات نے زمانہ فترت میں بھی کبھی بت کو سجدہ نہ کیا، کبھی غیر خدا کو خدا نہ قراردیا ہمیشہ ایک ہی جانا،ایک ہی مانا ، ایک ہی کہا ، ایک ہی سے کام رہا۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمیہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرماتا ہے اوراللہ عظیم فضل والا ہے۔پھر ظہور بعثت سے ابدالآبادتک حال تو ظاہر وقطعی ومتواتر ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۴۵۸)
صدیق اکبر اور وحدانیت الہٰی بزبان اعلی حضرت
اعلی حضرت عظیم البرکت مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’بحمداللہ تعالٰی یہی فضل اجل واجمل ، بلکہ اس سے بھی اعلی واکمل ، نصیب حضرت امیر المومنین ، امام المشاہدین، افضل الاولیاء المحمدیین، سیدنا و مولانا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہہے ۔ چندبرس کی عمر شریف ہوئی کہ پَرتَوشانِ خلیلاللہ بت خانہ میں بت شکنی فرمائی۔ (یعنی حضرت سیدنا ابراہیم خلیلاللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جس طرح بت شکنی فرمائی تھی ویسے ہی انہوں نے بھی بت شکنی فرمائی)ان کے والد ماجد حضرت سیدنا ابو قحافہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکہ وہ بھی صحابی ہوئے اس زمانۂ جاہلیت میں انہیں بت خانے لے گئے اور بتوں کو دکھا کر کہا:’’ھٰذِہٖ اٰلِھَتُکَ الشَّمُّ الْعُلٰی فَاسْجُدْلَھَایعنی یہ تمہارے بلند وبالا خدا ہیں انہیں سجدہ کرو۔ وہ تو یہ کہہ کرباہر گئے ، سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ قضائے مبرم کی طرح بت کے سامنے تشریف لائے اور براہ اظہار عجز صنم وجہل صنم پرست(یعنی بتوں کی لاچاری اور بت پرستوں کی جہالت کو ظاہر کرنے کے لیے) ارشادفرمایا :’’اِنِّیْ جَائِعٌ فَاَطْعِمْنِیْمیں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔‘‘ وہ کچھ نہ بولا۔ فرمایا: ’’اِنِّیْ عَارٍفَاکْسِنِیْ میں ننگاہوں مجھے کپڑا پہنا۔‘‘ وہ کچھ نہ بولا ۔ صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے ایک پتھر ہاتھ میں لے کرفرمایا: ’’میں تجھ پر پتھر ڈالتا (مارتا) ہوں۔فِاِنْ کُنْتَ اِلٰھاً فَامْنَعْ نَفْسَکَ اگر توخدا ہے تو اپنے آ پ کو بچا ۔‘‘ وہ اب بھی نرابت بنارہا۔ آخر بقوت صدیقی پتھر پھینکا کہ وہ خدائے گمراہاں منہ کے بل گرا۔ والد ماجد واپس آتے تھے یہ ماجرا دیکھا تو کہا: ’’اے میرے بچے !یہ کیا کیا؟‘‘ فرمایا:’’ وہی جوآپ دیکھ رہے ہیں؟‘‘ وہ انہیں ان کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا اُمّ الخیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس کہ وہ صحابیہ ہوئیں لے کر آئے اور ساراواقعہ ان سے بیان کیا انہوں نے فرمایا :’’ اس بچے سے کچھ نہ کہو ، جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا ، میں نے سنا کہ ہاتف (یعنی غیب سے کوئی) کہہ رہا ہے :’’یَا اَمَۃَ اللہِ عَلَی التَّحْقِیْق! اِبْشِرِیْ بِالْوَلَدِ الْعَتِیْق اِسْمُہٗ فِی السَّمَاءِ الصِّدِّیْق لِمُحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَرَفِیْقٌ یعنی اے اللہ کی سچی باندی! تجھے خوشخبری ہو اس آزاد بچے کی، اس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے محمد صَلَّی اللہ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یار ورفیق ہے ۔ (ارشاد الساری، کتاب مناقب الانصار، باب اسلام ابی بکر، ج۸، ص ۳۷۰ تا ۳۷۱، مرقاۃ المفاتیح، مناقب ابی بکر، تحت الحدیث:۶۰۳۴، ج۱۰، ص۳۸۵)
صدیق اکبر اور اولیت قبولِ اسلام سیدنا ابوبکرصدیق پہلے ایمان لائے حضرت سیدنا ابراہیم نخعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی ارشادفرماتے ہیں:’’أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ یعنی سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں۔‘‘ (سنن الترمذی، کتاب المناقب، مناقب علی بن ابی طالب،الحدیث: ۳۷۵۶، ج۵، ص۴۱۱) صدیق اکبر کی ازواج (بیویاں) اوراولاد ازواج کی تعداد آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی ازواج کی تعداد چارہے آپ نے دو۲نکاح مکۂ مکرمہ میں کیے اور دو۲مدینۂ منورہ میں۔ پہلا نکاح اور اس سے اولاد پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبد العزی کی بیٹی اُم قتیلہ سے ہوابعض کے نزدیک اس کانام اُمّ قتلہ ہے، یہ قریش کے قبیلہ بنو عامر بن لؤی سےتعلق رکھتی تھی۔ اس سے آپ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور ایک بیٹی حضرت سیدتنااسماء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاپیداہوئیں۔ دوسرا نکاح اور اس سے اولاد دوسرا نکاح اُمّ رومان(زینب)بنت عامر بن عویمرسے ہوایہ قبیلہ فراش بن غنم بن کنانہ سے تعلق رکھتی تھیں،ان سے ایک بیٹے حضرت سیدناعبد الرحمن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاورایک بیٹی اُمّ المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پیدا ہوئیں۔حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو عمرہ کے لیے لے کر جانے والے یہی حضرت سیدنا عبد الرحمن بن ابو بکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہی تھے۔