عالم برزخ

اسلامی انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search

عالم برزخ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے دنیا و آخرت کے درمیان ایک جہاں ہے۔ جس کو عالم برزخ کہتے ہیں۔[1]

  • تمام انسانوں اور جنوں کو مرنے کے بعد اسی عالم میں رہنا ہوتا ہے۔ اس عالم برزخ میں اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے کسی کو آرام ملتا ہے اور کسی کو تکلیف۔ [2]
  • مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدن کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ اگر چہ روح بدن سے جدا ہوگئی ہے مگر بندے پر جو آلام یا صدمہ گزرے گا روح ضرور اس کو محسوس کرے گی اور متاثر ہوگی۔ جس طرح دنیاوی زندگی میں بدن پر جو راحت اور تکلیف پڑتی ہے اس کی لذت اور تکلیف روح کو پہنچتی ہے۔ اسی طرح عالم برزخ میں بھی جو انعام یا عذاب بدن پر واقع ہوتا ہے۔ اس کی لذت اور تکلیف روح کو پہنچتی ہے۔[3]
  • مرنے کے بعد مسلمانوں کی روحیں ان کے درجات کے اعتبار سے مختلف مقامات میں رہتی ہیں۔ بعض کی قبر پر' بعض کی زمزم شریف کے کنویں میں' بعض کی آسمان و زمین کے درمیان' بعض کی آسمانوں میں'بعض کی عرش کے نیچے قندیلوں میں' بعض کی اعلیٰ علیّین میں مگر روحیں کہیں بھی ہوں اپنے جسموں سے بدستور ان کو تعلق رہتا ہے جو کوئی اِن کی قبر پر آئے اس کو وہ دیکھتے پہچانتے اور اس کی باتوں کو سنتے ہیں۔[4]
  • اسی طرح کافروں کی روحیں بعض ان کے مرگھٹ یا قبر پر رہتی ہیں' بعض کی یمن کے ایک نالہ برہوت میں' بعض کی ساتوں زمین کے نیچے' بعض کی سجین میں۔لیکن روحیں کہیں بھی ہوں ان کے جسموں سے ان روحوں کا تعلق برقرار رہتا ہے چنانچہ جو ان کے مرگھٹ پر گزرے یا ان کی قبر پر آئے اس کو دیکھتے پہچانتے اور اس کی باتوں کو سنتے ہیں۔[5]
  • یہ خیال کہ مرنے کے بعد روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ کسی آدمی کا بدن ہو یا کسی جانور کا جس کو فلا سفر تناسخ اور ہندو آواگون کہتے ہیں یہ خیال بالکل ہی باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔[6]
  • جب آدمی مرجاتا ہے تو اگر گاڑا جائے تو گاڑنے کے بعد اور اگر نہ گاڑا جائے تو وہ جہاں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کا نام منکراور دوسرے کا نام نکیر ہے یہ دونوں فرشتے مردہ سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ اگر مردہ ایماندار ہو تو ٹھیک ٹھیک جواب دیتا ہے کہ میرا رب اﷲعزوجل ہے۔ میرا دین اسلام ہے اور حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اﷲعزوجل کے رسول ہیں۔[7]
  • پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دیتے ہیں۔ جس سے ٹھنڈی ٹھنڈی جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں قبر میں آتی رہتی ہیں۔ اور مردہ آرام و چین کے مزہ میں پڑ کر اپنی قبر میں سکھ کی نیند سو رہتا ہے اور اگر مردہ ایماندار نہ ہو تو سب سوالوں کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم ہے ۔ پھر اس کی قبر میں دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور جہنم کی گرم گرم ہوائیں اور بدبو قبر میں آتی رہتی ہیں۔ اور مردہ طرح طرح کے سخت عذابوں میں گرفتار ہوکر تڑپتا اور بے قرار رہتا ہے فرشتے اس کو گرزوں سے مارتے ہیں اور اس کے برے اعمال سانپ بچھو بن کر اسے عذاب پہنچاتے رہتے ہیں۔[8]
  • مردہ بھی کلام کرتا ہے مگر اس کے کلام کو انسان اور جن کے سوا تمام مخلوقات' جانور وغیرہ سنتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی سن لے تو وہ بیہوش ہو جائے گا۔[9]
  • ایمان دار اور نیکوں کی قبریں کسی کی ستر ستر ہاتھ چوڑی ہو جاتی ہیں۔[10]
  • کسی کسی کی قبریں اتنی چوڑی ہو جاتی ہیں کہ جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے۔[11]
  • کافروں اور بعض گنہگاروں کی قبر اس قدر زور سے دباتی ہے اور اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر ہو جاتی ہیں۔[12]
  • قبر میں جو کچھ عذاب و ثواب مردے کو دیا جاتا ہے اور جو کچھ اس پر گزرتی ہے وہ سب چیزیں مردہ کو معلوم ہوتی ہیں۔ زندہ لوگوں کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ جیسے سوتا ہوا آدمی خواب میں آرام و تکلیف اور قسم قسم کے مناظر سب کچھ دیکھتا ہے ۔ لذت بھی پاتا ہے اور تکلیف بھی اٹھاتا ہے۔ مگر اس کے پاس ہی میں جاگتا ہوا آدمی ان سب باتوں سے بے خبر بیٹھا رہتا ہے۔

حوالہ جات

  1. المؤمنون:۱۰۰/ شرح الصدور،باب مقر الأرواح،ص۲۳۶
  2. بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۲۴
  3. شرح العقائد النسفیۃ، مبحث عذاب القبر،ص۱۰۱
  4. شرح الصدور، باب مقر الأرواح، ص۲۳۵۔۲۳۸/الفتاوی الرضویۃ الجدیدۃ،ج۹،ص۶۵۸
  5. شرح الصدور، باب مقر الارواح، ص۲۳۶۔۲۳۷/الفتاوی الرضویۃ الجدیدۃ،ج۹،ص۶۵۸
  6. الفتاوی الھندیۃ، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ج۲،ص۲۶۴ / النبراس،باب والبعث حق،ص۲۱۳
  7. النبراس،مبحث عذاب القبر وثوابہ،ص۲۰۶،۲۱۰/سنن الترمذی، کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر،رقم ۱۰۷۳،ج۲،ص۳۳۷
  8. مشکاۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب مایقال عند من حضرہ الموت، الفصل الثالث، رقم ۱۶۳۰،ج۱،ص۴۵۸
  9. صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب کلام المیت علی الجنازۃ،رقم ۱۳۸۰،ج۱،ص۴۶۵
  10. سنن الترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر،رقم۱۰۷۳،ج۲،ص۳۳۷
  11. مشکاۃ المصابیح ، کتاب الجنائز ، باب مایقال عند من حضرہ الموت،الفصل الثالث، رقم۱۶۳۰،ج۱،ص۴۵۸
  12. جامع الترمذی،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی عذاب القبر،رقم ۱۰۷۳،ج۲،ص۳۳۷